بذریعہ ٹی وی پتا چلا کہ آج مرزا اسد اللہ خان غالب کی برسی ہے۔ تب سے میں سوچ رہا ہوں کہ غالب پہ کیا لکھا جائے۔ میں کوئی لکھاری نہیں، احساسِ ضرورت اور ضرورتِ احساس مجھ سے لفظ اگلواتے ہیں اور میری بس اتنی سی ادبی خدمات ہیں۔
خیر اسد اللہ خان غالب کا نام میرے نزدیک جدتِ احساس کا علم ہے۔ مجھے ان لوگوں پہ ترس ضرور آتا ہے جو غالب کی ضروریات کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے مفلس ترین شخص بنا دیتے ہیں یا کہیں اس کو اہلِ تصوف کا سرخیل بنا ڈالتے ہیں۔ شاید ہم اس قدر جناب دار سوچ کے مالک ہیں کہ اتنے قد کو بھی صرف اپنی سوچ کے سائے سے ناپتے ہیں۔
ہم غالب کو یہ کیوں نہیں لکھتے کہ وہ لاشعور کی ان مسافتوں کو پار کر گیا جن پہ آج تک احساس کے مسافر رُکے کھڑے ہیں اور لب و رُخسار سے ہٹ نہیں پا رہے۔ بلکہ یہاں احساس کی بجائے فن لکھا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔
اب اس کو انسانی نفسیات کا شاعر کہا جائے تو بھی بے جا نا ہو گا، اُسے احساس کی گتھیاں سلجھانے والا کہا جائے تب بھی اچھا ہے۔۔۔ اور اگر اسکو انسانی ذات کے گورکھ دھندھوں کا مسافر کہا جائے تو بھی بے جا نا ہو گا۔
کیونکہ وہ اپنے فن میں کسی بھی لب و رُخسار پہ رکا نہیں۔ اس کا ہر ہر قدم پہلے قدم سے بہت بہت آگے ہے۔ ہر ہر لمحہ وہ احساس کے ارتقاء میں ہے۔ اور جب انسان احساس کے ارتقاء میں ہو تو لفظ برجستہ و بے ساختہ ہوتے جاتے ہیں۔ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے نہیں لکھنا پڑتے۔
آئیے! دو صدیوں پہ محیط غالب کو اکیسویں صدی کے تناظر میں پڑھیں۔ یقین کریں آج بھی اس کا احساس زندہ و سلامت ہے کیونکہ اس نے ایک زندگی جی ہے۔ ہر ہر سانس کو اپنے اندر اتارا ہے۔
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
No comments:
Post a Comment